شبِ زفاف: ایک دلکش داستان

شبِ زفاف: دو دلوں کی کہانی

رات کی وہ خاموشی جو شادی کے شور و غل کے بعد چھائی تھی، میرے دل کی دھڑکنوں کو اور تیز کر رہی تھی۔ دولہن کے بھاری جوڑے میں لپٹی، میں پلکیں جھکائے کمرے کے وسط میں بیٹھی تھی، جہاں گلاب کی پتتیوں کی مدھم خوشبو اور ایک انجانی سی کیفیت رچی ہوئی تھی۔ وہ کمرے میں ٹہل رہے تھے، ان کے ہر قدم کی چاپ میرے دل پر ایک نئی دستک دے رہی تھی۔

ہماری شادی ایک ہفتہ پہلے ہوئی تھی – مہندی کی رات کی وہ رنگین محفل، بارات کی دھوم دھام، اور پھر رخصتی کے وقت امی کی وہ نمناک آنکھیں۔ سب کچھ ایک خواب کی طرح تیزی سے گزرا تھا۔ لیکن آج کی رات… آج کی رات میری زندگی کا ایک بالکل نیا ورق کھلنے والا تھا۔

ان کے قدم میرے قریب رکے۔ میں نے دھیرے سے نظریں اٹھائیں اور ان کی آنکھوں میں جھانکا۔ ان آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی – محبت کی، احترام کی، اور ایک نئے سفر کی شروعات کا یقین۔ انھوں نے میرا ہاتھ تھاما، اور ان کے لمس میں وہ اپنائیت تھی جس کی مجھے ہمیشہ سے تلاش تھی۔ میری مہندی سے سجی ہتھیلی ان کی مضبوط گرفت میں محفوظ محسوس کر رہی تھی۔

انھوں نے جھک کر میرے ماتھے پر بوسہ دیا۔ یہ ایک ایسا لمس تھا جس میں صرف پیار ہی نہیں، ایک وعدہ بھی تھا – ایک ساتھ ہنسنے اور رونے کا وعدہ، زندگی کے ہر موڑ پر ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا عہد۔ میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں، اس لمس نے میرے اندر ایک سکون کی لہر دوڑا دی۔ مجھے یقین ہو گیا کہ آج سے ہماری راہیں ایک ہو گئی ہیں، اور ہم ایک دوسرے کے سہارے اپنی منزل کی طرف بڑھیں گے۔

کمرے کی مدھم روشنی میں ان کے چہرے میرے قریب ہوتے گئے۔ وہ ایک ایسی قربت تھی جس میں جسموں کا فاصلہ مٹ رہا تھا اور روحیں ایک دوسرے میں جذب ہو رہی تھیں۔ ان کی سانسوں کی گرمی میرے چہرے پر محسوس ہو رہی تھی، اور دھیرے دھیرے ہمارے درمیان کی تمام جھجکیں، تمام حجابیں ختم ہوتی چلی گئیں۔

مجھے یاد ہے کہ شادی سے پہلے سہیلیوں سے اس رات کے بارے میں کتنی باتیں سنا کرتی تھی۔ کسی نے ڈرایا تو کسی نے عجیب و غریب قصے سنائے۔ لیکن اس وقت، ان کی آنکھوں میں دیکھ کر مجھے کسی قسم کا خوف محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ صرف ایک گہرا یقین تھا، ایک اطمینان تھا کہ میں بالکل صحیح جگہ پر ہوں۔

انھوں نے میرے کان میں سرگوشی کی، ان کے الفاظ اتنے دھیمے تھے کہ بمشکل سنائی دے رہے تھے۔ لیکن ان الفاظ میں جو محبت اور خلوص تھا، وہ میرے دل کی گہرائیوں تک اتر گیا۔ میں نے ان کے کندھے پر اپنا سر رکھا اور ایک لمبی سانس لی۔ وہ لمحہ کتنا پرسکون تھا، کتنا اطمینان بخش۔

ہم کافی دیر تک خاموش بیٹھے رہے، ایک دوسرے کے وجود کو محسوس کرتے ہوئے۔ کوئی جلد بازی نہیں تھی، کوئی دباؤ نہیں تھا۔ صرف دو دل تھے جو دھیرے دھیرے ایک دوسرے کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ ہو رہے تھے۔ انھوں نے میری زلفوں کو سہلایا اور پھر میرے گلے میں موجود نیکلس پر ان کی انگلیاں رینگیں۔

پھر انھوں نے میری آنکھوں میں دیکھا اور ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، “تم بہت تھکی ہوئی لگ رہی ہو۔” ان کی آواز میں فکر اور محبت تھی۔ میں نے بھی مسکرا کر جواب دیا، “آپ بھی۔”

شادی کی رسمیں واقعی بہت تھکا دینے والی ہوتی ہیں، لیکن اس تھکاوٹ میں بھی ایک عجیب سی خوشی شامل تھی۔ ایک نئی زندگی کی شروعات کی خوشی۔

انھوں نے اٹھ کر کمرے کی کھڑکیوں کے پردے سرکائے اور باہر جھانکا۔ رات کا اندھیرا گہرا ہو چکا تھا اور دور کہیں کتوں کے بھونکنے کی آواز آ رہی تھی۔ پھر وہ میری طرف مڑے اور ان کی نظروں میں وہی محبت اور اپنائیت تھی۔

انھوں نے مجھے سہارا دے کر اٹھایا اور آہستہ آہستہ مجھے بستر کی طرف لے گئے۔ بستر گلاب کی پتیوں سے سجا ہوا تھا اور کمرے میں ایک دھیمی دھیمی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ میں نے پہلی بار اس کمرے کو اپنا محسوس کیا۔ یہ اب صرف ان کا کمرہ نہیں تھا، یہ ہمارا کمرہ تھا۔

میں بستر پر بیٹھ گئی اور انھوں نے میرے جوڑے کا گھونگھٹ دھیرے سے اٹھایا۔ ان کی آنکھوں میں جو نظر تھی، اسے میں کبھی نہیں بھول سکتی۔ وہ نظر ایک گہری محبت کی کہانی بیان کر رہی تھی۔

انھوں نے میرے قریب بیٹھ کر میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا اور کہا، “ثمرہ، تم جانتی ہو کہ میں کتنا خوش ہوں کہ تم میری زندگی میں آئی ہو۔” ان کے لہجے میں سچائی اور خلوص تھا۔

میں نے ان کی طرف دیکھا اور میرے لبوں پر بھی ایک مسکراہٹ آ گئی۔ “میں بھی بہت خوش ہوں، عادل۔” یہ میرے منہ سے نکلنے والے پہلے الفاظ تھے جو میں نے ان کا نام لے کر کہے تھے۔

اس رات ہم نے بہت سی باتیں کیں – اپنے بچپن کے قصے، اپنی پسند ناپسند، اپنے خواب اور اپنے ارادے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ہم ایک دوسرے کو برسوں سے جانتے ہوں۔ وہ رات باتوں میں ہی گزر گئی، اور جسمانی قربت سے کہیں زیادہ، ہماری روحیں ایک دوسرے سے قریب تر ہوتی گئیں۔

جب صبح کی پہلی کرن کھڑکی سے اندر آئی تو میں ان کے سینے پر سر رکھے گہری نیند سو رہی تھی۔ ان کا بازو میرے گرد حمائل تھا اور ان کے چہرے پر ایک اطمینان اور سکون کا نور تھا۔ ہماری پہلی رات گزر چکی تھی – ایک ایسی رات جس میں کوئی بے چینی نہیں تھی، کوئی خوف نہیں تھا، صرف پیار تھا، اعتماد تھا اور ایک دوسرے کے لیے گہری چاہت تھی۔

وہ پہلی رات ہماری نئی زندگی کی ایک خوبصورت بنیاد ثابت ہوئی۔ اس رات میں جو محبت اور اپنائیت ہم نے ایک دوسرے کو دی، وہ ساری زندگی ہمارے ساتھ رہی۔ آج بھی جب میں اس رات کے بارے میں سوچتی ہوں تو میرے چہرے پر ایک مسکراہٹ آ جاتی ہے۔ وہ صرف ایک رات نہیں تھی، وہ ہمارے لازوال بندھن کی پہلی صبح تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *